فاتح شام و قبرص حضرت امیر معاویہؓ بن ابو سفیانؓ


 فاتح شام و قبرص حضرت امیر معاویہؓ بن ابو سفیانؓ

تحریر: سیدہ حفظہ احمد
قریش قبیلے کی شاخوں میں سے دو شاخیں بہت نمایاں تھیں۔ ایک شاخ بنو ہاشم، جس سے نبی اکرمﷺکا تعلق تھا۔ دوسری شاخ بنو امیہ تھی، جس سے حضرت معاویہؓ کا تعلق تھا۔ دونوں خاندانوں کو شہرت و عظمت حاصل تھی۔ بنو امیہ خاندان کے جد اعلی امیہ بن عبد الشمس تھے۔ امیر معاویہؓ کا نسب نامہ پانچویں پشت پر نبی اکرمﷺ سے جاکر ملتا ہے۔
حضرت معاویہؓ کا تعلق خاندان بنو امیہ سے تھا۔ آپ کی پیدائش ہجرت سے پندرہ برس قبل ہوئی۔ آپ ؓصحابی رسول تھے۔ آپؓ نے فتح مکہ کے موقع پر 23 برس کی عمر میں اسلام قبول کرنے کا اعلان فرمایا اور یہ آپؓ کے والد محترم ہی کا گھر تھا، جسے نبی اکرم نے دار الامان ٹھہرایا اور فرمایا کہ جو شخص ابو سفیانؓ کے گھر میں داخل ہوگیا اس کو امان حاصل ہے۔ آپؓ کا شمار ان سترہ لوگوں میں ہوتا تھا، جو لکھنا پڑھنا جانتے تھے۔ آپؓ نے ان کو کاتب وحی مقرر کیا۔ آپؓ رازدار نبیﷺ تھے۔ آپؓ نہ صرف وحی کی کتابت کرتے بلکہ فرامین رسولﷺ سے جو خطوط جاری ہوتے تھے اس کی کتابت بھی امیر معاویہؓ کے ذمہ تھی۔ آپؓ نبی اکرم ﷺ کے برادر نسبتی تھے۔ آپؓ کی بہن ام المؤمنین حضرت ام حبیبہؓ نبی اکرمﷺ کے نکاح میں تھیں۔
حضرت امیر معاویہؓ کے والد کا نام حضرت ابو سفیانؓ تھا، جب کہ آپ کی والدہ کا نام ہندؓ تھا۔ آپؓ کے والدین کو بھی صحابیت کا شرف حاصل تھا۔
حضرت امیر معاویہؓ حلم و طبع کے مالک تھے. آپ مذہبی علوم کے ساتھ دیگر علوم میں بھی مہارت رکھتے تھے۔ آپؓ خطیب بھی تھے اور فصاحت و بلاغت میں ان کو نمایاں مقام حاصل تھا۔ آپؓ جوان اور فنون حرب وضرب (جنگ و جہاد) کے ماہر تھے۔ اسلام لانے سے قبل آپ نے مشرکین مکہ کی طرف سے کسی جنگ میں حصہ نہ لیا۔ مورخین لکھتے ہیں کہ "آپؓ نے اپنے قبول اسلام کا اعلان تو فتح مکہ کے موقع پر فرمایا مگر خود آپؓ فرماتے ہیں کہ میں عمرۃ القضاء سے پہلے اسلام لاچکا تھا۔ مگر میں مدینہ جانے سے ڈرتا تھا، جس کی وجہ یہ تھی کہ میری والدہ نے مجھے صاف کہہ دیا تھا کہ اگر مدینہ گئے تو ہم تم سے ضروری اخراجات زندگی بھی بند کردیں گے"۔
قبول اسلام کے اعلان کے بعد تو شب و روز آپﷺ کی صحبت اور خدمت نبویﷺ میں ہی بسر کیے۔ آپﷺ کے وصال کے بعد عہد خلفائے راشدین میں بھی آپؓ کا مقام و مرتبہ بلند تھا۔ دور صدیق اکبرؓ میں شام کی طرف جو لشکر بھیجے گئے آپؓ اس کے ہر دستے میں اول تھے۔ فوج کے دستے کے کمانڈر بھی مقرر کیے گئے۔
دور عمرؓ میں دمشق کے گورنر مقرر کئے گئے اور اس حیثیت سے آپؓ نے روم کی سرحدوں میں جہاد جاری رکھا اور متعدد شہر فتح کیے۔ عہد عثمانؓ میں آپؓ نے اس عہدے سے ترقی کی اور پورے شام کے گورنر مقرر کیے گئے۔ اس دور میں آپؓ کا ایک اہم کارنامہ قبرص کی فتح تھی۔ اس دور حکومت میں آپ ؓ نے سب سے پہلا سمندری جہاد بھی کیا۔ اور نبی اکرم نے سب سے پہلے سمندری جہاد کرنے والے کے لیے جنت کی بشارت دی تھی۔
آپؓ تقریبا 18ھ سے 40ھ تک تقریبا 22 سال گورنری کے منصب پر فائز رہے۔ 19 سال تک 64 لاکھ مربع میل یعنی آدھی دنیا پر حکومت کی۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ 18ھ میں آپ کے بھائی یزید بن سفیانؓ طاعون کی وبا سے وفات پاگئے تو حضرت عمرؓ ان کا عہدہ گورنری امیر معاویہؓ کو دے دیا تھا۔
حضرت علیؓ کے بعد جب حضرت حسنؓ اپنی خلافت سے دستبردار ہوئے تو لوگوں نے آپؓ اپنا خلیفہ منتخب کیا اور آپؓ کے دست شفقت پر بیعت کرلی۔ آپؓ کا دور خلافت تقریبا 20 سال(40ھ تا 60ھ) رہا۔ آپؓ کے دور خلافت میں بھی فتوحات کا سلسلہ جاری رہا۔ حضرت عمرؓ کے دور میں سندھ میں مسلمانوں نے اپنے قدم مستقل نہیں جمائے تھے مگر امیر معاویہؓ کے دور میں سندھ فتح ہوا اور یہاں مسلمانوں کے قدم جمے۔ اس سلسلے میں قندھار، مکران، سیسان، ترمذ، خراسان، روس، کابل کے ساتھ ساتھ قسطنطنیہ کی فتح بہت اہمیت کی حاصل ہے۔
آپؓ نے فوج کے ساتھ بحری فوج کو مزید ترقی دی ان کا وظیفہ بڑھایا اور ان کے گھر والوں کا بھی وظیفہ مقرر کیا۔ بحری فوج کو دو حصوں تقسیم کیا ایک حصہ سردی میں جہاد کرتا اور ایک حصہ گرمی میں۔ آپؓ نے سرحدوں کی حفاظت کے لیے قلعوں کی مرمت کروائی اور نئے قلعے تعمیر کروائے۔ آپؓ نے مردم شماری کا باقاعدہ محکمہ قائم کیا۔ آپؓ نے امن و امان قائم رکھنے کے لیے پولیس کے شعبے کو مزید ترقی دی۔ آپؓ سرکاری ڈاک کا باقاعدہ ایک محکمہ قائم کیا جس کو محکمہ برید کا نام دیا گیا۔ آپؓ نے فرامین اور خطوط کی ایک نقل دفتر میں رکھنے کی ابتداء کی۔ آپؓ نے نئے شہروں کو آباد کیا اور پرانے شہروں کو ترقی دی۔ آپؓ نے مساجد کی تعمیر و ترقی کے لیے بھی کام کیا۔ آپؓ نے بیت اللہ شریف کی خدمت کے لیے مستقل ملازم رکھے۔ بیت اللہ شریف پر حریر کا خوب صورت غلاف چڑھایا۔ آپؓ نے ہی سب سے پہلے اقامتی ہسپتال قائم کروائے۔ سب سے پہلا اقامتی ہسپتال دمشق میں قائم کیا۔
اگرچہ آپؓ کی حکومت خلافت سے شخصی حکومت میں تبدیل ہوئی تھی مگر آپؓ نے اس کو مستحکم کرنے کے لیے ہر ممکن تدبیر و طریقہ اختیار کیا اور حکمرانی کو اسلام کے دائرے اور جائز حدود میں رہ حکومت کی بنیادوں کو مستحکم کیا۔ آپؓ کے کردار میں سخاوت کا عنصر غالب تھا۔ آپؓ عدل و انصاف سے کام لیتے تھے۔
خود نبی اکرمﷺ نے بھی ان کے لیے بہت سی دعائیں کیں۔ ان کی تعریف کی اور عظمتیں بیان کیں۔ بے شک آپؓ ایک عظیم لیڈر تھے۔ آپؓ نے 22 رجب المرجب 60ھ میں وفات پائی۔ آپؓ کی نماز جنازہ اسحٰق بن قیسؓ نے پڑھائی۔ آپؓ دمشق کی سر زمین میں مدفن ہیں۔
اللہ تعالی سے دعا اللہ ہم سب کو دین اسلام پر چلنے صحابہ کی ناموس کی حفاظت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
واللہ اعلم بالصواب
Reactions

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Ad Code

Responsive Advertisement