شرارتی جن اور شاہ جی کا دلچسپ واقعہ

ہمارے گاؤں میں ایک شاہ جی رہتے تھے وہ پڑھے لکھے تھے انکے پاس دینی تعلیم بھی بہت تھی ہر وقت صاف ستھرے رہنے والے اور بارعب شخصیت لوگوں میں اٹھنا بیٹھنا اور دوسروں کو اچھی اور سبق آموز باتیں بتانا اور قصّے کہانیاں سُننا سنانا اور لوگوں کے دُکھ سُکھ میں,شریک ہونا وغیرہ۔

گاؤں کے اکثر لوگ روزانہ عصر کے بعد گاؤں سے باہر ایک تالاب کے پاس لگے پیپل کے بہت بڑے درخت کے نیچے آکر بیٹھ جاتے اور ایک دوسرے سے اپنے دکھ سکھ شیئر کرتے۔ ایک واقعہ انہوں نے سنایا جسکو سن کر سب حیران رہ گئے اور میں بھی۔ اسلیے کہ میں شاہ جی کے حالات سے اچھی طرح واقف تھا۔ شاہ جی کہتے ہیں

 میرے پاس جو گھوڑی ہے جو آپ سب لوگوں کی دیکھی بھالی ہے۔ اور یہ بھی کہ مجھے کتنی پیاری ہے اور آپ لوگوں کو یہ بھی معلوم ہے میں اسکو کتنے لاڈوں سے پالتا ہوں اور ہر روز اسکو کھول کر چھوڑ دیتا ہوں مگر کسی کے بھی کھیت میں نہیں گھُستی نہ کسی گھر میں جاتی ہے۔ راستوں اور روڈ کے ارد گرد چرتی رہتی ہے اور عصر سے کے وقت خود گھر آجاتی ہے۔ سب لوگوں نے اثبات میں سر ہلا کر انکی بات کی تصدیق کی۔۔ پھر بولے

یہ کچھ عرصہ قبل کی بات ہے جب میرے گھر کے حالات بہت بہتر نہیں تھے مگر برے بھی نہیں تھے۔

ایک روز میں نے حسب ِ معمول دوپہر کے وقت گھوڑی کو کھول کر گھر سے باہر نکال دیا۔ اور میں معمول کے کاموں میں مصروف ہو گیا۔ اس روز گرمی بھی کچھ کم تھی آسمان پر بادل بھی منڈلا رہے تھے۔ میں نے دوپہر کا کھانا کھایا۔ اور گھر کے صحن میں لگی بیری کے نیچے چارپائی بچھا کر کچھ دیر آرام کیلیے  لیٹ گیا۔ نہ جانے کب آنکھ لگ گئی جب آنکھ کھلی تو ظہر کا وقت گزر گیا اور عصر کا وقت بھی جانے کو تھا۔

اٹھ کر منہ ہاتھ دھویا تو آنکھیں کھلیں۔ گھوڑی کا خیال آیا تو گھوڑی کہیں نظر نہ آئی۔

بہت پریشانی ہوئی۔ گھر سے نکل کر دائیں بائیں بھی دیکھا پھر بھی کہیں دکھائی نہ دی۔

وقت بھی ایسا ہونے کو تھا کہ روشنی کم ہو جانی تھی۔

کافی سوچنے کے بعد اکیلے ہی ڈھونڈنے چل پڑا ادھر ادھر بھی نظریں دوڑا رہا تھا کہ شاید کہیں نظر آجائے۔ مگر ایسا نہ ہوا ۔ میں گھوڑی کو ان ان جگہوں پر تلاش کرنے لگا جہاں جہاں وہ چرنے کو جایا کرتی تھی۔

بہت دیکھا مگر نہ ملی۔ آخر سوچ کر میں نے اور دیگر جگہوں پر بھی تلاش شروع کر دی۔ تلاش کرتے کرتے میں اس جگہ کی طرف چل پڑا جہاں ایک طرف پانی بہتا ہے اور گاؤں کا بڑا کھلیان ہے اور پاس بہت سارے چھوٹے بڑے درخت درخت ہیں۔ 

کچھ ہی دیر بعد میں اس جگہ کے قریب تھا۔ میری آنکھیں ادھر ادھر بھی مسلسل تلاش میں گھوم رہی تھیں۔ اب عصر ڈھلنے کو تھی کچھ دیر بعد میں چلتے چلتے جب ایک چھوٹی سی بیری کے پیڑ کے پاس پہنچا جس کے نیچے ایک جھاڑی بھی تھی کیا دیکھتا ہوں کہ ایک چھوٹا سا کالا کلوٹا عجیب شکل وصورت اور چمکتی آنکھوں والا بھوت نما روڈا سا بچہ بیٹھا تھا۔ میں اسے رک کر غور سے دیکھنے لگا۔ اور اس سے مخاطب ہو کر کہا۔ اوئے تم کون ہو قدرت کے  شاہکار اور یہاں بیٹھے کیا کررہے ہو ؟

پہلے اس نے عجیب سی ہنسی نکالی اور پھر بولا شاہ جی اپنی گھوڑی تلاش کریں وقت بہت کم ہے آپکے پاس۔

اور آگے جائیں نظر آجائے گی۔ میرے ساتھ باتوں میں ٹائم ضائع نہ کریں۔ جلدی جائیں۔

میں نے کہا واہ اوئے نجومی دیا پُترا تم تو بڑا بولتے ہو۔

یہ کہہ کر میں آگے بڑھ گیا۔ گھوڑی کی بہت فکر لگی ہوئی  تھی۔ ساتھ ساتھ اس بچے بھوتنے کے بارے میں سوچنے لگا کہ یہ سچ بول رہا تھاکہ جھوٹ ؟ کیونکہ یہ چھوٹے قد والے شرارتی بہت ہوتے ہیں۔ 

آگے بڑھا تو دور سے کھلیان میں مجھے اپنی گھوڑی گول گول دائیں بائیں اِدھر اُدھر گھومتی نظر آئی۔ میں اور تیزی سے چلنے لگا۔ اور جب قریب پہنچا تو اندازہ لگایا کہ گھوڑی اس کھلیان سے نکلنا تو چاہ رہی ہے مگر نکل نہیں پارہی کیونکہ وہ دوڑ کر آتی ہے اور کنارے پر آکر اچانک رک جاتی ہے۔ مجھے دیکھ کر گھوڑی اور زیادہ کوشش کرنے لگی کہ مجھ تک پہنچ جائے۔ میں قریب پہنچ گیا گھوڑی کی طرف ہاتھ بڑھانےلگا تو گھوڑی مڑ کر پیچھے ہونے لگی۔ میں بہت پریشان ہوگیا۔ کہ کیا کیا جائے؟ پھر کچھ سوچنے کے بعد میں نے آواز لگائی۔ 

اوئے کون ہے سامنے آجاؤ میری گھوڑی کو پریشان مت کرو یہ تو بے زبان حیوان مال ہے مجھ سے بات کرو اسنے تمہیں کیا کہا ہے؟

اچانک ایک طرف سے آواز آئی۔ شاہ جی! ہم گھوڑی کو چھوڑ دیں گے مگر ہماری ایک شرط ہے۔ میں نے جواب دیا بولو کیا شرط ہے تمہاری؟

پھر وہی آواز آئی۔

یہ کہ آپ ہمارے سنگ کبڈی کھیلیں۔ میں نے حیرانگی سے کہا کبڈی؟؟

تو آواز آئی جی کبڈی!

میں بولا کبڈی تو تب کھیلوں گا جب تم نظر آؤگے تو۔

پھر آواز آئی شاہ جی اپنا سیدھا ہاتھ کھول کر آگے بڑھائیں۔ میں نے ایسا ہی کِیا تو میرے ہاتھ پر ایک سرمے دانی جس میں سرمہ تھا اور ایک سرمہ ڈالنے والی سلائی۔ ساتھ ہی وہ بولا شاہ جی ایک ایک سرمے کی سلائی آنکھوں میں ڈالیں۔ میں نے اللّٰہ کا نام لے کر دونوں آنکھوں میں سرمہ ڈالا تو مجھے جو نظر آیا وہ نظارہ عجیب تھا۔

چھوٹے بڑے ہر سائز کے بہت سے بھوتنے اکٹھے ایک دائرے میں کھڑے تھے اور گھوڑی انکے بیچ میں کھڑی تھی۔

ان میں سے ایک جو قد میں باقیوں سے کچھ بڑا تھا وہ بولا! شاہ جی تیار ہیں؟

میں نے کہا ہاں لیکن پہلے میری گھوڑی کو چھوڑ دو۔

اسنے کہا ٹھیک ہے چھوڑ دیا۔ ہم نے تو اسے ویسے بھی کچھ دیر شغل کے بعد چھوڑ ہی دینا تھا۔ پھر میں نے گھوڑی سے کہا چل شہزادی سیدھا گھر جانا میں بھی آتا ہوں۔گھوڑی میری بات سن کر گھر کی طرف روانہ ہو گئی۔

سورج ڈوب چکا تھا مگر ابھی روشنی کافی تھی۔

اب ہمارے درمیان کبڈی شروع ہو چکی تھی میں اکیلا ایک طرف تھا وہ سب ایک طرف۔ کچھ دیر بعد مجھے کچھ سوجھا؛  جب سب سے بڑے والا جوکہ ان سب کا سردا لگتا تھا میرے پاس آیا میں نے اسکو پکڑ کر گرا لیا اور دونوں گھٹنے اسکے سینے پر رکھ لیے۔اب وہ خود کو چھڑانے کی کوشش کر رہا تھا۔ اور اسکے ساتھی رو رہے تھے۔

میں نے اسے گھسیٹنا اور مارنا شروع کیا تو وہ مجھ سے معافی مانگنے لگا میں شروع سے ہی دل میں کچھ نہ کچھ پڑھ بھی رہا تھا۔ آخر وہ بولا شاہ جی! مجھے معاف کر دیں میں نے کہا تجھے تو جلا کر جاؤں گا۔وہ گھبرا بولا ہم آئندہ آپکی گھوڑی کو کبھی تنگ نہیں کریں گے بلکہ اس علاقے کو بھی چھوڑ دینگے۔

اسنے کہا شاہ جی آپ جو بھی مانگیں میں وہ آپکی بات پوری کرونگا۔ مگر مجھے آزاد کر دیں۔ پھر میں نے کہا مجھے تمہاری کسی بات کا یقین نہیں ہے تم قسم اٹھاؤ اس نے حضرت سلیمانٔ کی قسم اٹھائ کہ ہم کوئ شرارت نہیں کریں گے نہ اور  کسی کو تنگ کریں گے۔ آپ بولیں کہ آپکی کوئی خواہش ہے تو بتائیں۔ 

آخر میں نے کہہ دیا کہ جب میں صُبح اُٹھوں تو میرے تکیے کے نیچے جتنے پیسے سوچوں اتنے پڑے ہوں۔ اس نے کہا ٹھیک مگر صبح نہیں رات کو جو مانگ کر لیٹو گے صبح ملیں گے۔ اور ہاں پہلے سوچ کر ایک حد مقرر کر لینا۔ اور یہ یاد رہے ان پیسوں کا راض کسی کو بھی پتہ نہ چلے۔  گھر میں بھی نہیں ورنہ یہ سلسلہ بند ہو جائیگا یہ راز راز ہی رہے۔ میں نے کہا ٹھیک ہے۔ اور اسے آزاد کر دیا۔ اور ساتھ ہی وہ سب غائب ہو گئے۔

میں گھر آگیا۔اب نماز کا وقت ہو چکا تھا میں نماز کیلیے چلاگیا۔ واپس آکر کچھ کام کیا گھوڑی کو دیکھا بھالا۔ کھانا کھایا گھروالوں سے باتیں ہوئیں اور یہ کہہ کر سوگیا کہ صبح تکیے کے نیچے سے سو روپے ملیں۔

صُبح نماز کے بعد لوٹا تو خیال آیا کہ دیکھوں تو کچھ ملتا ہے کیا؟ کمرے میں آکر تکیے کو اٹھایا تو سو روپے پڑے تھے۔

میں نے پانچ سو کی حد مقرر کردی(اب میرے کزن بولے اس وقت کے پانچ سو بہت قیمت رکھتے تھے)

اور روزانہ سو روپے ملنے لگے۔ میں نے آہستہ آہستہ گھر کو بہتر کرنا شروع کر دیا یہاں تک کہ آج جو میرا شاندار گھر ہے وہ اسی طرح بنا ہے اور گھر میں ہر سہولت موجود ہے۔ مہمان کے آنے سے پہلے کوئی نہ کوئی آکر پہلے یہ بتاتا دیتا ہے کہ آپکا آج مہمان آئیگا ایک ہو یا زیادہ۔ مگر یہ سلسلہ اب سے تقریباً چار سال پہلے میرے بچوں کی وجہ  سے بند ہو گیا ۔

وہ ایسے کہ میرے بیوی بچے مجھ سے پوچھتے رہتے کہ یہ آپ کہاں سے اتنے پیسے لاتے ہیں کہ ہم اتنے خوشحال ہو رہے ہیں۔ مگر میں حیلے بہانے سے ٹال مٹول کر دیتا۔اس طرح عرصہ گزر گیا۔ مگر آخر میں ایک روز بہت مجبور ہوگیا۔ میرے بچوں نے کچھ اس طرح پروگرام بنایا کہ ایک روز جب ہم سب گھر والے بہت خوش تھے تواسی دوران بچوں نے پھر سے وہی پوچھنا چاہا تو میں ٹالنے لگا۔ میں نے کہا بچو یہ ایک راز ہے اسے راز رہنے دو آم کھاؤ گٹھلیاں مت گنو ورنہ سب ختم ہو جائے گا۔ مگر وہ نہ مانے آخر انہوں نے مجھے اس بیٹی کی قسم دے دی جس کو میں سب سے زیادہ پیار کرتا تھا۔ اور پھر میں نہ رہ سکا اور کہا لو سنو اور پھر مجھ سے کوئی گِلہ شکوہ بھی نہ کرنا۔ اور میں نے انکو سب کچھ بتا دیا۔ اسکے بعد تکیے کے نیچے کچھ نہ تھا اور مہمان کی خبر کوئی نہ دیتا

Reactions

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے

Ad Code

Responsive Advertisement